۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 361879
7 اگست 2020 - 23:59
مولانا سید مشاہد عالم رضوی 

حوزہ/امت مسلمہ کے علماء سے یہ توقع اس لئے تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے علم کے وارث تعلیمات قرآن ورسول کے مبلغ تھے اس لئے غدیر جیسے عظیم ومتواتر تاریخی اعلان رسالت کو امت کے سامنے پیش کر نا چاہئے تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی | امت مسلمہ کے علماء سے یہ توقع اس لئے تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے علم کے وارث تعلیمات قرآن ورسول کے مبلغ تھے اس لئے غدیر جیسے عظیم ومتواتر تاریخی اعلان رسالت کو امت کے سامنے پیش کر نا چاہئے تھا کیونکہ امانت ودیانت کا یہی تقاضا تھا مگر اس کے برعکس غدیر پر پردہ ڈالا گیا علی کی ولایت کو چھپایا اور مولا کے معنی کی تاویلات کی گئی۔

غدیر نقطہ اتحاد ہے

وہی غدیر جو مسلمانوں کے لئےنقطہ اتحاد ومرکزیت کا الھی نسخٔہ کیمیا اثر تھا جسےکتابوں میں فریقین نے لکھا اورمحدثین نے اسے تواتر سےنقل کیا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جس انداز وشان سے علی ابن ابی طالب کو اپنے مبارک ہاتھوں پر اٹھا کرحاجیوں کے کثیر مجمع میں پہچنوایا اور فرمایا: 
 من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ 
۔ترجمہ ۔جس جس کا میں آقا و مولی ہوں علی بھی اس کے آقا و مولی ہیں 

اسے سواد اعظم نے نظر انداز کیا جسکا اعتراف انصاف پسند علماء معاصر کو بھی ہے جیسا کہ آپ ذیل کی عبارتوں میں ملاحظہ کریں گے۔تو پھر کیا ہوا؟امت بکھر گی اسلام کا حقیقی چہرہ پردہ خفامیں چلا گیا قرآن مجید کی تفسیر اسرائیلیات کےزیر سایہ آگی اور لوگ باب مدینہ العلم علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کے دردولت سےدورہوتےگےاورنوبت یہ آن پہنچی کہ محکمات اسلام کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے لگ گےاورصراحت کو بھلادیا تواتر کوچھوڑ کرمنقطع سے وابستہ ہوگئے؟

تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے

مولانا کوثر نیازی کا شکوہ

  یہ وہ منزل ہے کہ سنی عالم مولانا کوثر نیازی بھی شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں نے دیکھا ہے بڑے سےبڑے عالم بھی اور آحادیث پر نظر رکھنے والے بھی مولا علی کہتے ہوئے جھجکتے ہیں۔۔۔حالانکہ سواد اعظم میں شامل ہونے کیلئے یہ ضروری تھا کہ علی کو مولا ما نا جاۓ اور جس کو مانا جائے پہچانا جاۓ۔

تقریراز
سابق وزیر امور مذہبی پاکستان خود اعلانیہ کہتے ہیں،
محمد سے حقیقی عشق کا مطلب ہے یہ کوثر مدینہ کی گلی میں بھی دمادم یا علی کہنا۔

لفظ مولی کےتاویلات

خطبہ غدیر خم میں لفظ مولی کے دیگر معنی کوردکرتے ہوئے صرف آقا وسردارہی کو فٹ معنی بتاتے ہوئے  مرحوم نیازی کہتے ہیں۔ ۔۔۔تپتی دوپہر میں آپنے۔رسول ص۔خطبہ حجتہ الوداع دیا۔۔۔اورخطبہ دیتے ہوئے جو اعلان فرماتے ہیں وہ اعلان یہ ہے کہ؛جس کا میں مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں ۔کیایہ سارا اہتمام۔۔۔صرف ۔۔۔اس لئے تھا کہ جس کا میں حمایتی ہوں علی اس کے حمایتی ہیں۔۔۔کیایہ کوئی شک کی بات تھی؟پھر رشتہ کا بھائی جس کا میں رشتہ کا بھائی ہوں علی اس کے رشتے کے بھائی ہیں یہ کوئی بچہ بھی جان سکتا تھا۔۔۔اب دو لفظ رہ جاتے ہیں ترجمہ کے وہی فٹ بیٹھتے ہیں وہی اس کا مفہوم ہے۔۔۔جس کا میں سردار ہوں یا جس کا میں آقا ہوں  اس کے علی سردار ہیں۔اس کے علی آقا ہیں۔

اب ایک بات اور عرض کروں یہ جو اعلان ولایت تھا حضرت علی کا جو رسول کی زبان سے ہوا ضروری نہیں کہ اس کے ساتھ حکومت ہو تب ولایت ہو ہاں اگر ولایت کے ساتھ حکومت ہو تو یہ حکومت کے لئے اعزاز ہے لیکن ولایت اس کی محتاج نہیں ہے۔

بحوالہ مولی علی کرم اللہ وجہہ 

مولانا کوثر نیازی تقریرآٹھ جنوری انیس سو ترانوے کراچی 
عجیب بات ہے دورحاضر کے مسلم مبلغین علی ابن ابی طالب کی ولایت سے جیسےبےخبر ہیں اور رسول اللہکے ہدایات کو بھلاکرامت مسلمہ کے مشکلات ومسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مسلمانوں کے زوال کو این وآن کے سر تھوپتے ہیں حالانکہ وقت تو کہہ رہا ہے کہ اپنی علمی ومعنوی میراث کی خبر لی جائے اوررسول اللہ صلی نےغدیر خم میں صحابہ سے طولانی خطاب میں امت کو قرآن اور اپنے اھل بیت علیھم السلام سے وابستگی کی جو کامیابی ونجات کی شاہ کلیددی تھی اسے ہاتھوں میں لیا جائے تاکہ متحدہ طور پر داخلی وخارجی دشمنوں کو شکست فاش ہو اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
ولا تھنواولاتحزنواوانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین
 ال عمران۔۱۳۹
ترجمہ ۔خبردار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ہونا اگر تم صاحب ایمان ہو تو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے

اٹھارہ ذی الحجہ یوم غدیر

لہذا اٹھارہ ذی الحجہ روز اعلان ولایت علی علیہ السّلام کو پوری امت مسلمہ میں احیاء کی ضرورت ہے اور تعصب سے بالاتراسی ولایت علی کو جوان طبقہ میں پیش کرکے انھیں گایڈ کرنےکا وقت ہےکہ یہ راستہ ہمارےرسول اللہ کا دیکھایا ہوا الھی وقرآنی راستہ ہے حق وصداقت دین ودیانت انصاف وعدالت کا راستہ ہے دنیا کچھ بھی کہے مگر مرد مومن رضاۓ الھی اور حق کا پابند ہے۔ 

یہ کلمات بھی ملاحظہ ہوں

جشن علی منانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اس حماقت؛عداوت ؛اورجہالت ؛کے دور میں شہر علم کے دروازے پر دستک دیں اور عرفان و آگہی اور شعور وہدایت کی بھیک مانگیں۔ 

بحوالہ سابق مولانا کوثر نیازی

شہر علم سےاشارہ ہےمعروف حدیث نبوی کی طرف کہ رسول اللہ صلی نےفرمایا میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں توجسے علم چاہیۓ وہ دروازہ سے آۓ۔

علامہ اقبال کہتے ہیں
ذات او دروازہ شہر علوم
زیر فرمانش حجاز و چین وروم

ترجمہ۔علی شہر علم کا دروازہ ہیں جنکے زیر فرمان حجاز و چین وروم کی سلطنتیں ہیں۔
یعنی شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظر میں چونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سارے علوم کے باب ہیں وہی سلطان حقیقی بھی ہیں جو خود اہل بصیرت کے لئے ایک قابل توجہ نکتہ ہے۔
جناب شیخ سعدی اسی بات کو اس طرح سے فرماتے ہیں اور بات توحید تک پہنچتی ہے کہتے ہیں بےعلم خدا کو نہیں پہچان سکتاتو نجات کے لئے خدا شناسی درکار ہےاور خدا شناسی کے لئے علم ضروری اور علم کے لئے شھر علم جانا ضروری اور شہر علم جانے کے لیے دروازہ شہر علم پر حاضری دینا ضروری ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ امت کو علی مرتضی کےٰ دست علم وحکمت وسیاست ودانائی پربصدادب پھر بیعت کر نا ہوگی اور غدیر کی خانہ نشینی کے نقصانات سے آگاہی حاصل کرنا ہوگی تاکہ امت مسلمہ کے درد کا مداوا ہوسکے یہی رسول اللہ سے سچی محبت اور علی کی ولایت کا تقاضا ہے۔ 

انتہاۓ کلام میں 

عظمت اسلام کی جلوہ نمائی ہے غدیر
نقطۂ تکمیل کارانبیائی ہے غدیر
ای مسلماں دیکھ یہ دولت کہیں گم ہو نہ جائے
مصطفیٰ کی زندگی بھر کی کمائی ہے غدیر
ڈاکٹر پیام اعظمی

تحریر: مولانا سید مشاہد عالم رضوی 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .